[ad_1]

ایس پی لیاقت آباد بن کر خاتون کو دھمکانے والا ملزم اعلیٰ پولیس افسر کی مداخلت پر رہا

سپرنٹنڈنٹ پولیس لیاقت آباد بن کر خاتون کو فون پر دھمکیاں دینے والے ملزم کو مقدمہ درج ہونے کے باوجود مبینہ طور پر ایک اعلیٰ پولیس افسر کی مداخلت پر رہا کر دیا گیا۔ 

پولیس کے مطابق شہریار ملک نامی ملزم کے خلاف لیاقت آباد تھانے میں 26 جون کو ایف آئی آر نمبر 301/2023 تعزیرات پاکستان کی دفعہ 506، 419 اور 170 کے تحت اے ایس آئی مدثر انور کی مدعیت میں درج کی گئی تھی۔

مقدمے کے مطابق سوشل میڈیا کے ذریعے واٹس ایپ پر ہونے والی گفتگو کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ہونے والی گفتگو کو مقدمہ کا اسکرپٹ بنا کر شہریار کو ملزم ظاہر کیا گیا۔

ایس پی لیاقت آباد بن کر خاتون کو دھمکانے والا ملزم اعلیٰ پولیس افسر کی مداخلت پر رہا

ملزم شہریار نے خاتون کو ایس پی لیاقت آباد بن کر فون کیا، گفتگو میں ملزم نے خود کو ایس پی لیاقت آباد بن کر کسی معاملے کا تصفیہ کرانے کے لیے خاتون کو دھمکیاں دیں، 26 جون کو مقدمے کے اندراج کے بعد ملزم کو تھانے بلوا کر گرفتار کیا گیا۔

 ملزم نے واٹس ایپ پر خاتون کو فون کرنے کی تصدیق کی اور اعتراف کیا کہ اس نے دھمکی آمیز فون کیا تھا۔ 

پولیس ذرائع کے مطابق ایس پی لیاقت آباد کی جانب سے ملزم سے سوال جواب کیے گئے، ملزم کی تھانے میں حراست کو کچھ وقت گزرا تھا کہ کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر کی جانب سے معاملے میں مبینہ مداخلت کی گئی اور افسر نے مبینہ طور پر ملزم کی گرفتاری پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ 

کسی مقدمے میں دفعہ 419 شامل ہو تو پولیس ملزم کو چھوڑنے کی مجاز نہیں مگر پولیس افسر کے دباؤ میں آکر پولیس نے ملزم کو رہا کر دیا، پولیس ذرائع کے مطابق گرفتار ملزم سے مزید تفتیش کی جانی تھی۔

ایس پی لیاقت آباد بن کر خاتون کو دھمکانے والا ملزم اعلیٰ پولیس افسر کی مداخلت پر رہا

تفتیشی حکام کے مطابق سوشل میڈیا پر ملزم کی بطور پولیس افسر تصاویر سامنے آئی ہیں، ایک تصویر میں ملزم ’سب مشین گن‘ کو لوڈ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، دوسری تصویر میں ملزم گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے وائرلیس پر گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے، ایک اور تصویر میں ملزم باوردی اہلکار ساتھ کھڑے کر کے گاڑی کی ڈگی پر ’سب مشین گن‘ پکڑے بیٹھا ہے۔ 

ملزم کے زیر استعمال گاڑی پر پولیس فلیگ اور ہوٹر لگا تھا جبکہ پرائیویٹ گاڑی کی نمبر پلیٹ میں پولیس کے رنگ شامل کر کے یہ تاثر دیا گیا کہ یہ گاڑی کسی اعلیٰ پولیس افسر کی ہے۔ 

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم سے تفتیش کر کے پولیس جاننا چاہتی تھی کہ اس سے پہلے ملزم مزید کتنے لوگوں کو فون کر چکا یا خود کو پولیس افسر ظاہر کر کے کیا کیا وارداتیں کرتا رہا؟ مگر پولیس کی جانب سے تفتیش شروع ہونے سے پہلے ہی ملزم کو رہا کر کے کیس دبا دیا گیا۔ 

پولیس ذرائع کے مطابق ملزم اور اس کے زیر استعمال گاڑی مبینہ طور پر اغوا برائے تاوان کی مختصر مدت کی وارداتوں اور دیگر جرائم میں بھی استعمال ہو سکتی ہے، ایسی ہی گاڑیاں گٹکا، چھالیہ اور دیگر قیمتی سامان کی اسمگلنگ جیسے مکروہ دھندے میں بھی استعمال کی جا رہی ہیں۔



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *