[ad_1]
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر عارف علوی کے خط کو یکطرفہ اور حکومت مخالف قرار دے دیا۔
شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط لکھ دیا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خط میں لکھا ہے کہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے، خط یکطرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت مخالف خیالات کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں، آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں، آپ نے قومی اسمبلی کی تحلیل کر کے سابق وزیرِ اعظم کی غیرآئینی ہدایت پر عمل کیا۔
وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا، آرٹیکل 91 کلاز 5 کے تحت میرے حلف پر بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے، کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آ رہے ہیں۔
شہباز شریف کا خط میں کہنا ہے کہ میں نے آپ کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ کی پوری کوشش کی، خط میں آپ کے لب و لہجہ کے سبب آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آپ کا حوالہ ایک جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں سے متعلق ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عملداری کے لیے ضابطوں پر سختی سے عمل کیا، تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے۔
خط میں وزیرِ اعظم نے لکھا کہ جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو فراموش کر دیا، آپ نے نجی وسرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور افراتفری کی کوششوں کو نظرانداز کر دیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں آپ نے نظر انداز کر دی، پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی، پی ٹی آئی کی وجہ سے جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی۔
مسلم لیگ ن کے صدر خط میں لکھا کہ بطور صدر عمران کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی، عدالتی حکم پر کسی سیاسی جماعت کی ایسی عسکریت پسندی کبھی نہیں دیکھی گئی، ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے، یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
وزیرِ اعظم کا کہنا ہے کہ جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اِس پر آواز بلند نہیں کی، آپ کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022ء کی طرف دلاتا ہوں، 2022ء میں پی ٹی آئی اقتدار میں تھی، اس رپورٹ میں ہے حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کر چکی ہے۔
جوابی خط میں وزیرِ اعظم نے کہا کہ رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے، رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی، سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے کی تمام تفصیل ہے، رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی، سیاسی مخالفین کو قید وبند اور نشانہ بنانے کی تفصیل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے، عالمی انسانی حقوق اداروں کی رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ ہے۔
شہباز شریف کا کہنا ہے کہ رکن قومی اسمبلی رانا ثناء اللّٰہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے، مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قید و بند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا گیا، ایک سابق وزیرِ اعظم کے خاندان کی خاتون رُکن کو بھی معاف نہ کیا گیا، سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا گیا، افسوس بطور صدر پاکستان آپ نے ایک بار بھی کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی۔
خط میں شہباز شریف نے کہا کہ آپ بطور صدر اِن خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے، آپ کے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یکطرفہ رویے کو ریکارڈ پر لاوں۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے خط میں یہ بھی لکھا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے پنجاب اور کے پی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دے دی، آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023ء کے حکم سے مسترد کر دیا، آپ نے 2 صوبوں میں بدنیتی پر مبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کوئی تشویش تک ظاہر نہ کی، یہ سب آپ نے چئیرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے کیا۔
واضح رہے کہ صدر عارف علوی نے وزیراعظم شہبازشریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا۔
[ad_2]