[ad_1]

فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکانے کے کیس کی سماعت کے دوران وکیل بابر اعوان اور تفتیشی افسر کے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے شاملِ تفتیش ہونے کے حوالے سے بیانات میں تضاد سامنے آیا ہے۔

اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے کیس کی سماعت کی۔

بابر اعوان عدالت میں پیش ہوئے، جنہوں نے استدعا کی کہ ان کے مؤکل عمران خان کی گاڑی کو جوڈیشل کمپلیکس آنے کی اجازت دی جائے۔

جج نے کہا کہ یہ بات آپ پہلے بتاتے تو ہم پہلے ہی اجازت دے دیتے۔

جج نے ان سے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شاملِ تفتیش ہوئے ہیں؟

بابر اعوان نے جواب دیا کہ عمران خان شاملِ تفتیش ہوگئے ہیں، تفتیشی افسر نے خود بتایا تھا کہ بذریعہ وکیل شاملِ تفتیش ہوئے ہیں۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو 3 نوٹس بھجوائے ہیں، وہ ابھی تک شاملِ تفتیش نہیں ہوئے ہیں، وکیل کے ذریعے ایک بیان آیا تھا جس پر کہا تھا کہ وہ خود پیش ہوں۔

جج راجہ جواد عباس نے کہا کہ آپ تک بیان پہنچا جسے آپ نے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا، اس سے تو آپ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔

عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ جے آئی ٹی کی تشکیل پر عدالت کی رہنمائی کریں، ایف آئی آر کے اندراج کو کتنے دن ہوئے اور جے آئی ٹی تاخیر سے کیوں بنی؟

جج راجہ جواد عباس نے کہا کہ عمران خان عدالت آ جائیں تو باقی دلائل سن لیں گے۔

عدالت کی جانب سے عمران خان کی ضمانت کی درخواست پر سماعت میں 11 بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکانے کے کیس میں عدالت نے عمران خان کی آج تک عبوری ضمانت منظور کی تھی۔

عدالت نے آج فریقین سے حتمی دلائل بھی طلب کر رکھے ہیں۔

دوسری جانب اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو مقدمے کا چالان جمع کرانے سے روکا اور عمران خان کو پولیس کے سامنے شاملِ تفتیش ہونے کا حکم دیا تھا۔



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *