[ad_1]

فوٹو: فائل
فوٹو: فائل

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شہباز گل کی گرفتاری کے بعد تین پیشیاں ہوئیں اور چار میڈیکل رپورٹس آئیں، مگر نہ شہباز گل نے عدالت میں کسی جسمانی تشدد کی آواز لگائی اور نہ ہی کسی میڈیکل بورڈ نے کسی قسم کے جسمانی تشدد کی تصدیق کی، آخر شہباز گل پر جسمانی تشدد ہوا یا نہیں ہوا؟ تشدد کیا تو کس نے کیا؟ کہاں کیا؟

پولیس نے شہباز گل کو 9 اگست کو گرفتار کیا، 24 گھنٹے حراست کے بعد 10 اگست کو مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا، جہاں شہباز گل نے کسی قسم کے جسمانی تشدد کا ذکر نہیں کیا۔

عدالت نے دو روزہ جسمانی ریمانڈ دیا تو شہباز گل کے وکلاء نے ٹارچر کیے جانے کا خدشہ ظاہر کیا۔ عدالت نے ملزم کے طبی معائنے کا حکم دیا اور 11 اگست کو میڈیکل بورڈ نے کسی قسم کا جسمانی تشدد نہ ہونے پر انہیں فٹ قرار دیا۔

دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر پولیس نے 12 اگست کو دوبارہ عدالت  میں پیش کیا جہاں شہباز گل نے جسمانی تشدد کا پھر کوئی ذکر نہیں کیا۔ پولیس کی مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد ہوئی اور عدالت نے شہباز گل کو اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

اڈیالہ جیل میں پولیس مینوئل کے مطابق شہباز گل کا طبی معائنہ کروایا گیا جس میں کسی قسم کے جسمانی تشدد کی نشاندہی نہ ہونے پر ملزم کو جیل میں وصول کر لیا گیا۔

 واضح رہے کہ جیل انتظامیہ کسی بھی ملزم کو لینے سے پہلے طبی معائنہ کرواتی ہے اور جسمانی تشدد ہونے کا اندیشہ ہو تو اس ملزم کو تفتیشی افسر کو واپس کر دیتی ہے۔

اسی دوران عمران خان کی جانب سے شہباز گل پر جسمانی تشدد کا الزام سامنے آیا تو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے پانچ رکنی میڈیکل بورڈ بنا کر فوری طبی معائنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

 اسلام آباد پولیس دو بار 15 اور 16 تاریخ کو ملزم شہباز گل کو طبی معائنے کے لیے لینے گئی مگر جیل انتظامیہ نے کہا کہ شہباز گل طبی معائنہ نہیں کروانا چاہتے اور وہ بالکل ٹھیک ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے بعد 48 گھنٹے کا جسمانی ریمانڈ ملنے پر ایک بار پھر پولیس 17 اگست کو اڈیالہ جیل پہنچی تو جیل حکام نے شہباز گل کو پانچ گھنٹے بعد آکسیجن لگا کر ایمبولینس میں اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا۔

پولیس نے ملزم کو سیدھے پمز اسپتال منتقل کیا اور اسپتال کے سینئر ڈاکٹرز کے پینل نے انہیں اپنی نگرانی میں رکھنے کے بعد 18 تاریخ کو کسی قسم کے جسمانی تشدد نہ  ہونے پر مکمل فٹ قرار دیا۔

پولیس حیران ہے کہ شہباز گل عدالت میں پیشی کے وقت بالکل نارمل تھے، ان کی فرمائش پر انہیں وہیل چیئر پر عدالت میں پیش کیا گیا جہاں کیمرے دیکھتے ہی انہوں نے اپنا ماسک اتارا اور شور شرابہ کرنا شروع کردیا۔

عدالت کی جانب سے دوبارہ پمز اسپتال بھیجنے کے حکم کے بعد شہباز گل خود چل کر پولیس کے ہمراہ اسپتال گئے جہاں سے ان کی تازہ ترین تصویریں اور ویڈیوز سامنے آچکی ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر شہباز گل کی مبینہ برہنہ تصاویر جھوٹی ہیں۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ تین پیشیوں پر کیا ملزم شہباز گل نے عدالت میں جسمانی تشدد کا بتایا؟ چار میڈیکل بورڈز کی رپورٹس میں اب تک کہیں شہباز گل پر کسی قسم کے جسمانی تشدد کا ذکر کیوں نہیں؟ وصولی کے وقت اڈیالہ جیل انتظامیہ نے جو میڈیکل کروایا اس میں بھی شہباز گل پر جسمانی تشدد کا ذکر کیوں نہیں؟ عمران خان کے الزام کے بعد شہباز گل نے دو بار میڈیکل بورڈ کو اوکے کی رپورٹ دیتے ہوئے معائنے سے انکار کیوں کیا؟ اڈیالہ جیل میں بھی تشدد ہوا تو 17 اگست کی میڈیکل رپورٹ میں اس کے شواہد کیوں نہیں ملے؟



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *