[ad_1]

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کے کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں۔

حکومتی نمائندے فاروق ایچ نائیک نے سپریم کورٹ میں مؤقف اختیار کیا کہ مذاکرات کے لیے مزید وقت درکار ہے، افہام و تفہیم سے معاملہ طے ہو جائے تو بحرانوں سے نجات مل جائے گی، اسمبلیاں نہ ہوئیں تو بجٹ منظور نہیں ہوسکے گا۔

پی ٹی آئی مذاکراتی کمیٹی کے رکن علی ظفر کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے اسمبلی تحلیل کرنے سے اتفاق نہیں کیا، حکومت ان مذاکرات کو معاملے کو طول دینے کے لیے استعمال نہ کرے، سپریم کورٹ جو حکم کرے گی ہم من و عن تسلیم کریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی شامل ہیں۔

اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ حکومت نے بھی اپنا جواب جمع کرا دیا ہے، فاروق نائیک صاحب مذاکرات سے متعلق مزید بتائیں گے۔

چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے رہنما بھی موجود ہیں، ہم بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہم نے ایک متفرق درخواست بھی جمع کرائی ہے، چیئرمین سینیٹ کے آفس میں مذاکرات ہوئے، چیئرمین سینیٹ نے سہولت کار کا کردار ادا کیا، دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے 5 ادوار ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی ایم ایف کا قرضہ سرکاری فنڈز کے ذخائر میں استعمال ہو گا یا قرضوں کی ادائیگی میں؟

فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ یہ جواب وزیرِ خزانہ دے سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی توڑنے پر بھی بجٹ کے لیے آئین 4 ماہ کا وقت دیتا ہے، اخبار میں پڑھا کہ آئی ایم ایف کے پیکیج کے بعد دوست ممالک تعاون کریں گے، تحریکِ انصاف نے بجٹ کی اہمیت کو تسلیم کیا یا رد کیا ہے؟ آئین میں انتخابات کے لیے 90 دن کی حد سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔

فاروق ایچ نائیک نے جواب دیا کہ 90 دن میں انتخابات کرانے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

مذاکرات ناکام ہوئے تو اپنے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے آئین استعمال کر سکتے ہیں

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عمل داری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے، کل رات ٹی وی پر دونوں فریقین کا مؤقف سنا، مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے، کہا گیا کہ ماضی میں عدالت نے آئین کا احترام نہیں کیا اور راستہ نکالا اور اس سے نقصان ہوا، اس عدالت نے ہمیشہ احترام کیا اور کسی بات کا جواب نہیں دیا، جب غصہ ہو تو فیصلے درست نہیں ہوتے اس لیے ہم غصہ ہی نہیں کرتے، نائیک صاحب! یہ دیکھیں یہاں کس لیول کی گفتگو ہوتی ہے اور باہر کس لیول کی ہوتی ہے، عدالت اور اسمبلی میں ہونے والی گفتگو کا موازنہ کر کے دیکھ لیں۔



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *