[ad_1]

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

پی ٹی آئی کی جلسے اور دھرنے کے لیے این او سی کے اجراء کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکم دیا ہے کہ تحریکِ انصاف جلسے و دھرنے کے لیے انتظامیہ سے اجازت لے۔

عدالتِ عالیہ میں مقامی تاجروں کی پی ٹی آئی دھرنے کے باعث راستوں کی بندش کے خلاف درخواست پر بھی سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کے علی نواز اعوان اور مقامی تاجروں کی درخواستوں کو یکجا کر کے سماعت کی۔

وکیل نے عدالت کو بتایا کہ علی نواز اعوان اس کیس میں پٹیشنر ہیں جو شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے آج دستیاب نہیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پاکستان تحریکِ انصاف شہر سے باہر ہے؟ عدالت نے صرف یہ ہی کہنا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے وہ قانون کے مطابق کریں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی والوں کا تو پتہ ہی نہیں ہے کہ انہوں نے کب آنا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کی درخواست 3 نومبر کی تھی جو پہلے ہی غیر مؤثر ہو چکی ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ پی ٹی آئی جلسے کی تاریخ اور وقت سے آگاہ کر کے انتظامیہ سے اجازت لے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ یہ سب ایڈمنسٹریشن نے ہی فیصلہ کرنا ہے، ہم نے صرف یہ ڈائریکشن دینی ہے کہ آپ ان کی درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔

معاون وکیل نے کہا کہ ہم انتظامیہ کو آج ہی درخواست دے دیتے ہیں، اس کیس میں بابر اعوان خود پیش ہوں گے، منگل تک سماعت ملتوی کر دیں۔

چیف جسٹس نے انہیں ہدایت کی کہ آپ نے انتظامیہ کو نئی درخواست دینی ہے، اگر مسئلہ حل نہ ہو تو نئی پٹیشن بھی دائر کر سکتے ہیں، عدالت کوئی مقام تجویز نہیں کر سکتی، یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ ڈی چوک میں اجازت دینی ہے یا ایف نائن پارک میں، جلسے کے لیے قواعد و ضوابط اور شرائط انتظامیہ کے ساتھ ہی طے ہونی ہیں، سپریم کورٹ سے بھی اس سے متعلق آرڈر آ چکا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے سوال کیا کہ تاجروں کی درخواست پر کیا کریں؟ ابھی راستے بند تو نہیں کیے گئے؟ اگر کوئی صوبہ فیڈریشن کی ڈائریکشن نہیں مانتا تو پھر کیا ہو گا؟ فیڈریشن امن و امان کی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لیے کیا کر سکتی ہے؟

ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے جواب دیا کہ وفاق آئین کے تحت آرمڈ فورسز کو طلب کر سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں بھی یہ معاملہ آیا تھا اور کچھ ڈائریکشنز دی گئی ہیں، اگر انہوں نے کہہ دیا کہ راستے بند نہیں ہوں گے تو ٹھیک ہے۔



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *