[ad_1]
اسلام آباد ہائی کورٹ نے آڈیو لیکس کیس میں ایف آئی اے اور دیگر کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں آڈیو لیکس کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے آغاز میں دلائل دیتے ہوئے پیمرا کے وکیل نے کہا کہ پرائیویٹ آڈیو لیک کو ٹی وی چینل نشر نہیں کر سکتے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ پیمرا اس بارے میں کیا ایکشن لے رہا ہے؟
پیمرا کے وکیل نے بتایا کہ ہم نے کہا تھا ٹی وی چینل ایسی آڈیو لیک نشر نہیں کریں گے، ہم نے یہ معاملہ کونسل آف کمپلینٹ کو بھیجا وہ فیصلہ کریں گے۔
جسٹس بابر ستار نے سوال کیا کہ کیا آپ مؤثر طریقے سے بطور ریگولیٹر کام کر رہے ہیں؟ کیا آپ نے ٹی وی چینلز کو کسی اور کیس میں فوری ہدایات جاری کی ہیں؟ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ فوری ایکشن نہیں لے سکتے، معاملہ کونسل آف کمپلینٹ کے پاس جائے گا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک دفعہ نہیں پورا دن ٹی وی چینلز پر وہ آڈیو لیکس چلتی رہیں۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ کھوسہ صاحب، اعتزاز صاحب نے لکھا تھا ریاست ہو گی ماں کے جیسی۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ تضحیک آمیز رویہ ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ ایک طرف فریڈم آف انفارمیشن دوسری طرف پرائیویسی کا معاملہ، بیلنس کیسے ہونا چاہیے، ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ یقینی بنائے، اعتزاز صاحب آپ بتائیں کیسے اس کیس کو اب آگے بڑھایا جائے؟
اعتزاز احسن نے کہا کہ سیلف ریگولیشنز ہونی چاہیے، یہاں تو آئین پر عمل نہیں کیا جاتا، آئین نے 90 دن میں الیکشن کا کہا لیکن عمل نہیں ہوا۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ اب پھر ہم کسی اور طرف نکل جائیں گے، واپس آتے ہیں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہاں نام لینے پر تو پابندی ہے لیکن میری تصویر پورا دن چلتی رہی ہے۔
جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ تو آپ کے الیکشن میں بھی آپ کی مدد کرے گی، بہرحال یہ سنجیدہ مسئلہ ہے، اس کو ایڈریس کریں گے۔
عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ چیک کیجئے گا، کوئی خبر تھی آئی بی کو ریکارڈنگ کی اتھارٹی دی گئی، یا ایسا ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ میں چیک کر کے بتا دوں گا۔
عدالت نے پی ٹی اے کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی صاحب آئندہ سماعت پر آپ تفصیلی رپورٹ جمع کرائیں، تماشا بنانا چاہتے ہیں تو بنالیں، اب وفاقی حکومت پر ہے کہ وہ کیسے چلانا چاہتے ہیں، اگر حکومت نے نہیں بتایا تو پھر ہم نیشنل اور انٹرنیشنل عدالتی معاون مقرر کریں گے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے اور دیگر کو دوبارہ جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
[ad_2]