[ad_1]

ناصر بٹ—فائل فوٹو
ناصر بٹ—فائل فوٹو

ناصر بٹ برطانوی ہائی کورٹ میں ایک اور مقدمہ جیت گئے، انہوں نے ایک اور پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے خلاف ہتکِ عزت کا مقدمہ جیت لیا۔

جسٹس مسز ہیدرولیمز نے نجی چینل کا مؤقف مسترد کر دیا کہ نواز شریف کو بدعنوانی پر سزا درست تھی۔

نجی ٹی وی کا کیس ہی اس بنیاد پر تھا کہ العزیزیہ کیس میں نواز شریف کی سزا کرپشن کے ثبوتوں کی بنیاد پر تھی۔

چینل کا مؤقف تھا کہ ناصر بٹ کی جج ارشد ملک کو دھمکانے اور رشوت دینے کی خبر عوامی مفاد میں نشر کی، ارشد ملک نے درست سزا دی تھی۔

جج جسٹس مسز ہیدر ولیمز نے چینل کے اس مؤقف کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

جج نے ناصر بٹ کی اس دلیل کو تسلیم کیا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی، ناصر بٹ نے خفیہ طور پر ویڈیو بنا کر جج ارشد ملک کو بے نقاب کیا۔

عدالت نے ناصر بٹ کا مؤقف تسلیم کیا کہ جج کی ویڈیو بنا کر نواز شریف کی بے گناہی کے لیے استعمال غلط نہیں۔

ناصر بٹ نے جج کو بتایا کہ انہیں ایک لمحے کے لیے بھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ نواز شریف نے کوئی غلط کام کیا۔

ناصر بٹ نے دلیل دی کہ جج ارشد ملک کو بتاتا کہ میں اس کی فلم بندی کر رہا ہوں تو وہ کبھی غلطی کا اقرار نہ کرتا۔

جج نے ٹی وی چینل کو ناصر بٹ کو 35 ہزار پاؤنڈ اور قانونی اخراجات بھی ادا کرنے کا حکم سنایا۔

ناصر بٹ کے اس کیس کی لندن ہائی کورٹ میں باقاعدہ سماعت ہوئی، مقدمے میں شواہد کا جائزہ انگلش جج نے لیا، کیس کا فیصلہ مقدمے کی 4 روزہ سماعت کے بعد ہوا۔

ویڈیو میں جج ارشد ملک کا اعتراف ہے کہ بلیک میل ہو کر نواز شریف کو العزیزیہ کیس میں 10 برس قید کی سزا دی۔

ٹی وی چینل کے وکلاء کا کہنا تھا کہ ایماندار جج ارشد ملک کو ناصربٹ نے دھمکایا اور رشوت دی۔

لندن ہائی کورٹ کی جج نے چینل کے وکلا کے دلائل کو کمزور قرار دے کر مسترد کر دیا اور چینل کے وکلاء کو مسلسل زور دینے پر ناراضی کا اظہار بھی کیا۔

لندن ہائی کورٹ کی جج جسٹس مسز ہیدر ولیمز نے 36 صفحات پر مشتمل مقدمے کا فیصلہ سنایا۔

جج نے چینل پر یہ پابندی بھی عائد کر دی کہ وہ نواز شریف اور ناصر بٹ کے خلاف الزمات نہیں دہرا سکتا۔

جج نے نجی چینل کی طرف سے نواز شریف اور ناصر بٹ کے خلاف دلائل کو مسترد کر دیا۔

جج نے قرار دیا کہ ناصربٹ کی ہتکِ عزت ہوئی اور بلیک میلنگ اور جھوٹے الزمات سے ساکھ کو نقصان پہنچا۔

جولائی 2019ء کو جب چینل نے الزامات لگائے تو یہ پاکستان میں ظفر صدیقی، برطانیہ میں طاہر خان کی ملکیت تھا۔

ناصر بٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ ارشد ملک کے اعتراف سے متعلق ویڈیو بنانے کی اجازت مانگتا تو نواز شریف کبھی نہ دیتے، جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانا عوام اور انصاف کے مفاد میں تھا۔

جج نے خود نواز شریف سے جاتی امراء میں مل کر معذرت کی اور بتایا کہ ان کے پاس دوسرا کوئی چارہ نہیں تھا۔

لندن ہائی کورٹ کی جج نے فیصلہ دیا کہ یہ ثابت نہیں کیا جا سکا کہ ناصر بٹ نے دھمکیاں دیں، رشوت دینے کی کوشش کی، چینل نے ناصر بٹ کا مؤقف حاصل کرنے کے لیے بھی معقول کوشش نہیں کی۔



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *