[ad_1]
قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کے پائلٹس کی جانب سے فلائٹ سیفٹی کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے، زیادہ پیسوں کی خاطر پائلٹ بغیر آرام کیے مقررہ حد سے زیادہ پروازیں اڑا رہے ہیں۔
پائلٹس کی کمی کے باعث پی آئی اے کی مجبوری اپنی جگہ مگر پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا ان معاملات پر آنکھیں بند رکھنا ایک طرف طیاروں اور مسافروں کو خطرے میں ڈال رہا ہے تو دوسری طرف بین الاقوامی پابندیاں مزید طویل ہو سکتی ہیں۔
عملے اور مسافروں کی سلامتی کے پیش نظر فلائٹ سیفٹی قوانین میں طے ہے کہ ایک کے بعد دوسری پرواز سے پہلے پائلٹ اور فرسٹ افسر کے لیے 12 گھنٹے آرام لازمی ہے، لیکن پی آئی اے میں یہ معاملہ بھی اُلٹا چل رہا ہے۔
اس صورتِ حال کا اندازہ صرف ایک دن یعنی 20 مارچ کی پروازوں سے لگایا جا سکتا ہے، جب پی آئی اے کی پرواز پی کے 203 صرف 5 گھنٹے کے نوٹس پر آپریٹ ہوئی، پی کے 211 چھ گھنٹے کے نوٹس پر اور اسلام آباد سے دمام کی پرواز پی کے 245 کے لیے پائلٹ اور فرسٹ افسر کو صرف 2 گھنٹے کے نوٹس پر ڈیوٹی پر طلب کیا گیا، ان میں سے کوئی پائلٹ اسٹینڈ بائی ڈیوٹی پر بھی نہیں تھا۔
منگل 21 مارچ کو کیپٹن شاہ نے پرواز پی کے 284 دبئی پشاور آپریٹ کی، پھر یہ بائی روڈ دن 12 بجے اسلام آباد پہنچے اور رات کو اسلام آباد سے القسیم کی پرواز پی کے167 آپریٹ کی، مطلب ریسٹ ٹائم پورا کیے بغیر 24 گھنٹے میں دو پروازیں آپریٹ کر رہے ہیں۔
ایک پرواز کی تکمیل پر دوسری پرواز سے قبل 12 گھنٹے آرام کا قانون اس لیے بنایا گیا کہ ایک تھکا ہوا پائلٹ طیارے کی تباہی اور مسافروں کی ہلاکت کا سبب بن سکتا ہے۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ سی اے اے مخصوص حالات میں پائلٹس کی ڈیوٹی میں کچھ چھوٹ دے سکتی ہے، لیکن اتنے بڑے پیمانے پر خلاف ورزیاں حادثات اور بین الاقوامی پابندیوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔
سی اے اے قانون کے تحت پائلٹ ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ 100 گھنٹے ڈیوٹی کر سکتا ہے، لیکن فروری میں پی آئی اے کے دو پائلٹس نے 104 اور 105 گھنٹے ڈیوٹی کی۔
پی آئی اے ذرائع کے مطابق بعض پائلٹس کو لالچ ہوتا ہے کہ جتنی زیادہ پروازیں، اتنے زیادہ پیسے، جبکہ پی آئی اے کی مجبوری یہ ہے کہ وہ پائلٹس کی کمی کا شکار ہے، طیاروں اور مسافروں کی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات کے باوجود سی اے اے نے اس معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
حالانکہ پی آئی اے ہو یا سی اے اے دونوں ہی عالمی پابندیوں کا شکار اور انڈر آڈٹ ہیں، موجودہ صورتِ حال میں دونوں کے لیے شہری ہوا بازی کے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے ہونے والے آڈٹ میں کلیئر قرار پانا سوالیہ نشان ہے۔
جیو نیوز نے دونوں اداروں کے حکام سے مؤقف کے لیے سوال نامہ ارسال کیا مگر تاحال کوئی جواب نہیں ملا۔
[ad_2]