[ad_1]

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے مبینہ بیٹی کو کاغذاتِ نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر سابق وزیرِ اعظم، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی نااہلی کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے استفسار کیا ہے کہ کیا عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر ہیں؟ کیا محض نشستوں پر کامیاب ہونا پبلک آفس ہولڈر بنا دیتا ہے؟

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ نے سماعت کی، لارجر بینچ میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس ارباب محمد طاہر شامل ہیں۔

درخواست گزار شہری کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے، عمران خان کی جانب سے وکلاء سلمان اکرم راجہ اور ابو ذرسلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اس درخواست کے قابلِ سماعت ہونے کا سوال ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ہم ابھی نہیں کہہ رہے کہ آپ میرٹ پر دلائل دیں، اگر میرٹ پر جائیں تو یہ 2 منٹ کا کیس ہے ویسے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جب عدالت نے نوٹس جاری کر دیا تو عمران خان کو میرٹ پر جواب جمع کرانا چاہیے تھا، انہوں نے کیس کے میرٹ پر جواب جمع نہیں کرایا، انہوں نے کیس قابلِ سماعت ہونے سمیت 5 اعتراضات اٹھائے، عمران خان نے اعتراض اٹھایا کہ وہ اب ممبرِ قومی اسمبلی نہیں ہیں، کوئی شک نہیں کہ انہیں توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جا چکا ہے، عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے، عدالت نے اُس حلقے پر دوبارہ الیکشن کرانے سے روک رکھا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس کے باوجود بھی وہ دوبارہ ممبرِ قومی اسمبلی نہیں بن جاتے، عمران خان اب اُس نشست سے تو ایم این اے نہیں ہیں۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کا ایک دوسرے حلقے سے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ الیکشن کے بعد اگر حلف نہ لیا جائے تو پھر اسٹیٹس کیا ہو گا؟ کیا پارٹی سربراہ پبلک آفس ہولڈر ہوتا ہے؟ اس پر مطمئن کریں، یہ دونوں سوالات اہم ہیں، ان پر دلائل دیں، ایک تو الیکشن ٹریبونل میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کی درخواست دی جا سکتی ہے، الیکشن ٹریبونل میں تو کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی، اب کیا عمران خان حلف لیے بغیر بھی پبلک آفس ہولڈر ہیں؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ جی! ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس نکتے پر اب آپ نے مطمئن کرنا ہے، پہلے اس کیس کے قابلِ سماعت ہونے کو دیکھیں گے، کیس قابلِ سماعت ہوا تو ہی آگے چلیں گے۔

وکیلِ صفائی نے کہا کہ قابلِ سماعت کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ کس عدالت کا دائرہ اختیار ہے؟

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر ہیں؟ عمران خان جب الیکشن لڑے اس وقت کوئی ٹریبونل جا سکتا تھا، اس کیس میں تو کوئی ٹریبونل میں نہیں گیا، عمران خان ابھی بھی الیکشن لڑ کر جیتے، کیا کوئی کرپٹ پریکٹس میں عمران خان کے خلاف ٹریبونل گیا؟ اس وقت عمران خان نے نئی نشست پر حلف بھی نہیں لیا، عمران خان کے خلاف اس وقت کووارنٹو کی رِٹ کیسے جاری کریں؟ کیا محض نشستوں پر کامیاب ہونا پبلک آفس ہولڈر بنا دیتا ہے؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان کو الیکشن جیت لینے پر پبلک آفس ہولڈر کہا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس نکتے پر آپ نے مطمئن کرنا ہے۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل نے پارٹی سربراہ سے متعلق پرانے فیصلے کا حوالہ دیا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ کیس اصل میں تھا کیا؟

وکیلِ صفائی سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں بتا دیتا ہوں میں اُس کیس میں بھی وکیل تھا، میں اُس کیس میں دراصل نواز شریف کا وکیل تھا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں استفسار کیا کہ مختلف وقت میں مختلف کردار؟

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم تو وکیل ہیں، آفیسر آف کورٹ ہیں، کسی پارٹی سے تعلق نہیں، اس کیس میں پہلے سے 62 ون ایف کا فیصلہ موجود تھا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے سوال کیا کہ کیا بیانِ حلفی کی شرط ابھی بھی موجود ہے؟

درخواست گزار کے وکیل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ بیانِ حلفی دینے کا حکم دیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر غلط بیانِ حلفی د یاگیا ہے تو آپ توہینِ عدالت کی درخواست دائر کر دیں، اگر آئندہ الیکشن میں عمران خان وہی بیانِ حلفی دیتے ہیں تو یہ فریش کیس نہیں ہو گا، جو ماضی ہے وہ ماضی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ مشرف دور میں بی اے کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی اور بہت سے لوگوں نے جعلی ڈگریاں لیں، سمیرا ملک کیس میں سپریم کورٹ نے تفتیش کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جعلی ڈگری ثابت ہونے پر ان کے خلاف ایف آئی آرز درج کی جائیں، کیا اُن کیسز میں کچھ ہوا تھا؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان سے متعلق تو امریکی عدالت کا فیصلہ موجود ہے، عمران خان نے امریکی عدالت میں بیانِ حلفی جمع کرایا ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ بیانِ حلفی نہیں ڈیکلریشن ہے، جس پر اوتھ کمشنر نے پاکستان میں دستخط کیے۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ عمران خان نے بطور والد بیٹی کی سرپرستی حوالے کرنے کا ڈیکلریشن دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اُس ڈیکلریشن میں والد کا لفظ تو کہیں موجود ہی نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر قومی اسمبلی آج تحلیل ہو جاتی ہے تو پھر اس پٹیشن کا کیا بنے گا؟

وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ یہ نااہلی تب تک رہے گی جب تک آرٹیکل 62 ون ایف آئین میں موجود ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ فیصل واؤڈا کا کیس بھی غلط بیانِ حلفی کی بنیاد پر تھا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فیصل واؤڈا کیس میں حالات اور واقعات مختلف تھے، فیصل واؤڈا نے سپریم کورٹ میں جا کر معافی مانگ لی تھی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ مطلب اس کیس میں بھی اگر آ کر معافی مانگ لی جائے تو پھر؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فیصل واؤڈا کے کاغذاتِ نامزدگی اور شہریت چھوڑنے میں وقت بہت کم تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسے تو کوئی بھی بعد میں آ کر کہہ دے کہ میں پہلے یہ ڈکلیئر نہیں کر سکا تھا، اگر کوئی آج آ کر معافی مانگ لے تو بات ختم اور کوئی معافی نہ مانگے تو تاحیات نا اہل؟ اگر مان لیا جائے کہ بیان حلفی غلط تھا تو کیا تاحیات نا اہلی ہو گی؟ اس عدالت نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دیا، سپریم کورٹ نے فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔

دورانِ سماعت سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین کیسز کا بھی تذکرہ ہوا۔

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ نواز شریف کے خلاف کیس میں عمران خان ہی درخواست گزار تھے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ مانگ رہے ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ایسا ہو سکتا ہے نا کہ کسی شخص کو بہت بعد میں پتہ چلے کہ اس کا ایک بچہ بھی ہے؟ ہو سکتا ہے نا کہ وہ کافی عرصے کسی اور احساس میں رہا ہو؟ کیا اس بنیاد پر کوئی شخص نااہل ہو سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی شخص نے بچہ لے کر پالا ہوا ہے تو اس کو اپنے ڈیپنڈنٹس میں ظاہر کرنا ہوتا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

درخواست گزار کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *