لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب میں الیکشن کرانے کی درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

عدالتِ عالیہ کے جسٹس جواد حسن نے پنجاب میں الیکشن کرانے کی درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا۔

پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کے لیے درخواستوں پر سماعت کے دوران آئی جی پنجاب عثمان انور لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالت کو بتایا کہ مجھے کیس کا پس منظر معلوم نہیں، جو الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہو گا ہم اس پر عمل کریں گے۔

جسٹس جواد حسن نے کہا کہ ہمیں بس آپ کی یقین دہانی چاہیے تھی، آئی جی پنجاب جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔

چیف سیکریٹری پنجاب نے عدالت کے روبرو کہا کہ ہم عدالت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے پابند ہوں گے، جس کے بعد عدالت نے چیف سیکریٹری پنجاب کو بھی جانے کی اجازت دے دی۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت کے سامنے صرف یہ معاملہ ہے کہ تاریخ کس نےدینی ہے، عدالت میں صدر اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تاریخ دینے کی بات ہوئی، میرے اس پر اعتراضات ہیں، اس میں الیکشن کمیشن اور صدرِ مملکت پارٹی نہیں ہیں، جو فریق نہ ہو اسے عدالت کوئی ہدایت جاری نہیں کر سکتی۔

تحریکِ انصاف کے وکیل نے کہا کہ ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو تو فریق بنا دیا تھا۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ صدر کو ابھی تک فریق نہیں بنایا گیا۔

جسٹس جواد حسن نے استفسار کیا کہ آپ کا اعتراض ہے کہ الیکشن کمیشن فریق نہیں؟

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ تاریخ دینے کے لیے الیکشن کمیشن فریق ہی نہیں، قانون دکھا دیں کہ جنرل الیکشن کی تاریخ الیکشن کمیشن نے دینی ہے، عدالت نے خود کل کہا تھا کہ ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس پر عمل نہ ہو سکے، آرٹیکل 220 پر عمل درآمد الیکشن کمیشن کا کام نہیں، جب تک الیکشن کمیشن کو فنڈ نہیں ملتے کیسے الیکشن کرا سکتے ہیں؟ الیکشن کے لیے مجھے وفاقی حکومت کی مکمل سپورٹ چاہیے، درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر میرے اعتراضات ہیں، قانون میں الیکشن کی تاریخ مؤخر ہو سکتی ہے، بغیر نگراں سیٹ اپ کے شفاف انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں؟ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ تاریخ الیکشن کمیشن نے دینی ہے، تاریخ الیکشن کمیشن کے دینے کا اگر لکھا ہے تو میں ابھی باہر چلا جاؤں گا۔

گورنر پنجاب بلیغ الرحمٰن کے وکیل شہزاد شوکت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام درخواستوں میں گورنر پر کوئی نہ کوئی الزام لگایا گیا ہے، اگر گورنر ایڈوائس پر اسمبلی نہ توڑیں تو خود تحلیل ہو جاتی ہے، آئین میں گورنر نے 3 ہی کام کرنے ہوتے ہیں، گورنر نے آرٹیکل 105 کے تحت ایڈوائس پر عمل کرنا ہوتا ہے، اسمبلی کی خود بخود تحلیل آئین میں دی گئی ہے، جب گورنر نے اسمبلی تحلیل کی ہو تو تاریخ دینا ان کی ذمے داری ہے، اگر گورنر اسمبلی کی تحلیل کا حصہ نہ بنے ہوں تو الیکشن کی تاریخ دینا ان کی ذمے داری نہیں، نگراں حکومت کا تقرر گورنر نے ایڈوائس پر کیا ہوتا ہے۔

گورنر پنجاب کے وکیل نے تحریکِ انصاف کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ جب گورنر نے تاریخ نہیں دینی تو درخواستیں تو مسترد ہو جانی چاہئیں۔

تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیف سیکریٹری اور آئی جی نے فرائض انجام دینے کی یقین دہانی کرائی ہے، صدرِ مملکت الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، الیکشن کی تاریخ نہ دینے کا معاملہ خالی نہیں چھوڑا جا سکتا۔

انہوں نے کہا کہ گورنر، صدر اور الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن کے ذریعے الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں، اس پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی، صدر انکار نہیں کر رہے، عدالت کہے گی تو صدر اس پر عمل کریں گے۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *