[ad_1]
ایف آئی اے نے گرفتار ملزم شاہد اسلم کو اسلام آباد کی عدالت میں پیش کر دیا۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے اہل خانہ کے ٹیکس ریکارڈ کے معاملے پر اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ میں گرفتار ملزم شاہد اسلم کو ایف آئی اے نے جج عمر شبیر کے سامنے پیش کیا۔
سماعت کے دوران پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شاہد اسلم کو گزشتہ روز گرفتار کیا، شاہد اسلم کو ایف بی آر سے انفارمیشن مل رہی تھی، احمد نورانی کو شاہد اسلم انفارمیشن دے رہے تھے۔
پراسیکیوٹر نے کہاکہ شاہداسلم نے غیرملکی افرادکوانفارمیشن دی،ان کےخلاف ثبوت مل رہےہیں جن سے معلوم ہو رہا ہے یہ انفارمیشن باہر دے رہے تھے۔
پراسیکیوٹر نے شاہد اسلم سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی ہے۔
شاہداسلم نے کہا کہ میں ایف بی آر کافی عرصے سے کور کر رہا ہوں، میں صحافی ہوں، اپنی پیشہ ورانہ ذمے داری جانتا ہوں، میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں، کوئی غیرقانونی کام نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کوئی ڈیٹا سابق چیف آف آرمی اسٹاف سے متعلق کسی کو نہیں دیا، انٹرنیشنل میڈیا کے لیے کام کیا، میں عزت دار انسان ہوں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ شاہد اسلم اپنے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ کیوں نہیں دے رہے۔
جج نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بطور صحافی انفارمیشن لینا غلط تو نہیں۔
پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایف بی آر کی انفارمیشن لیک کرنے والے ملزمان نے شاہد اسلم کا بار بار نام لیا ہے۔
شاہد اسلم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت تعین کرے شاہد اسلم کو گرفتار ٹھیک طریقہ کار سے کیا بھی گیایا نہیں، اگر ان کو غلط گرفتار کیا گیا تو یہ اغواء کیا گیا ہے۔
وکیلِ ملزم نے کہا کہ کیا کیس میں ملزمان کے بیان کو مصدقہ قرار دیا جا سکتا ہے؟ شاہد اسلم کو بیان پر گرفتار کرنا قطعاً ٹھیک نہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں سے ایف آئی اے نے شاہد اسلم کو گرفتار کیا ہوا ہے۔
وکیلِ ملزم کی جانب سے شاہد اسلم کے خلاف کیس ڈسچارج کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
[ad_2]