[ad_1]

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

الیکشن کمیشن نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت کے دوران فیصلہ محفوظ کر لیا جو ایک بجے سنایا جائے گا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت مکمل ہو گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن میں اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے متعلق سماعت ہوئی، الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بینچ سماعت کی۔

حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون اور سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے بابر اعوان اور علی نواز اعوان، جماعت اسلامی کی جانب سے میاں اسلم الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ یونین کونسل کی تعداد میں اضافہ اسلام آباد کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے ضروری ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے استفسار کیا کہ کیا مردم شماری کی رپورٹ آئی ہے؟

اشتر اوصاف نے کہا کہ ادارہ شماریات نے اسلام آباد کی آبادی میں اضافے کا بتایا، الیکشن کمیشن کو آبادی میں اضافے کا معاملہ دیکھنا چاہیے، اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی آبادی میں اضافے کو تسلیم کیا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کو حتمی فیصلہ کرنے کا اختیار دیا ہے، ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو وفاقی حکومت کا مؤقف سننے کا کہا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو سنے بغیر فیصلہ جاری کیا، ماضی میں بھی شیڈول جاری ہونے کے بعد بھی الیکشن ملتوی کیے گئے، الیکشن کمیشن کو آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، الیکشن کمیشن بڑی تعداد میں شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم نہیں رکھ سکتا۔

وفاقی حکومت اسلام آباد میں یونین کونسلز میں اضافے سے متعلق قانون سازی کر چکی ہے، الیکشن کمیشن نئے قانون کے مطابق اسلام آباد میں ازسرنو حلقہ بندیاں کرے، یونین کونسلز میں اضافے کے بعد ووٹر لسٹوں کو ازسرنو تشکیل دینا ہو گا، اس سے قبل یونین کونسلز کی تعداد 50 سے بڑھا کر101 کی گئی۔

بینچ میں شامل ممبر نے کہا کہ 6 مہینے پہلے تک تو یہ تعداد اتنی نہیں تھی تو 6 ماہ میں کیسے آبادی اتنی بڑھ گئی۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ نادرا کے ڈیٹا کا مکمل طور پر دوبارہ جائزہ لیا گیا، ہماری غلطی کی وجہ سے آبادی کا بہت بڑا حصہ حق رائے دہی سے محروم ہو جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ اسلام آباد میں 2 بار حلقہ بندیاں ہو چکی ہیں، پنجاب میں 2 بار حلقہ بندیاں ہو چکی، تیسری بار ہونے جارہی ہیں، حکومت کو پہلے خیال کیوں نہیں آیا کہ وقت پر یوسیز بڑھا لینی چاہئیں، اب جب شیڈول کا اعلان ہو چکا ہے تو یوسیز بڑھانا چاہ رہے ہیں، حکومت نے کمیشن کو ایک پیچیدہ صورت حال میں ڈال دیا ہے۔

سابق اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ اگر کبھی غلطی ہو جائے تو کمیشن کو چاہیے کہ معاونت کرے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ غلطی ایک بار ہو، بار بار تو نہ ہو۔

اشتر اوصاف نے کہاکہ یقین دلاتا ہوں حکومت بلدیاتی، عام انتخابات اور صوبائی انتخابات میں مکمل معاونت کرے گی۔

سکندر سلطان راجہ نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 148 میں لکھا ہے کہ لوکل قانون کے مطابق الیکشن کروانے ہیں، اب وہ قانون ہی بدل دیا جائے تو پھر کیا کیا جائے۔

چیف الیکشن کمشنر کا کہنا ہے کہ کوئی ایسی قانون سازی ہو کہ لوکل گورنمنٹ الیکشن اپنے وقت پر ہوں، ہمیں صوبوں میں بھی بلدیاتی انتخابات کے لیے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میئر کا انتخاب ڈائریکٹ کر دیا گیا ہے، ہمارے پاس تو ان کے کاغذات نامزدگی بھی نہیں، کیا پتہ کل پھر یونین کونسل کی تعداد کم کر دی جائے۔

اشتر اوصاف نے کہا کہ میئر کا الیکشن بھی اسی دن ہونا ہے۔

ممبر کمیشن اکرام اللّٰہ خان نے کہا کہ اب جنرل الیکشن بھی ہونے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہم پارلیمنٹ کو لکھیں گے کہ بلدیاتی انتخابات بروقت مکمل ہونے چاہئیں، آئین میں بلدیاتی انتخابات کرانا لازم ہے۔

ممبر اکرام اللّٰہ خان کا کہنا ہے کہ اس دوران اگر جنرل الیکشن آگئے تو پھر بلدیاتی انتخابات کا کیا مستقبل ہو گا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ خدشہ ہے حکومت حلقہ بندی کے بعد دوبارہ یونین کونسلز میں ردوبدل نہ کر دے، حکومت کہیں تو اس چیز کو روکے۔

اشتر اوصاف کا کہنا ہے کہ حلف دیتا ہوں اس کے بعد قانون میں ردوبدل نہیں ہوگا، قانون میں تبدیلی کے بعد نئے قانون کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کا کہنا ہے کہ حکومتیں ہر دوسرے دن الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے بلدیاتی انتخابات ملتوی کر دیتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درخواست ہے 125 یونین کونسلز کی بنیاد پر اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرائے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ووٹر لسٹوں کی اسکروٹنی کا ایک پورا مرحلہ ہے، الیکشن شیڈول جاری ہونے سے پہلے ووٹ رجسٹر کرایا جاسکتا ہے۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد جہانگیر جدون نے کہا کہ اشتر اوصاف کے دلائل سے مکمل اتفاق کرتا ہوں۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شیڈول جاری ہو چکا ہے، 31 دسمبر کو الیکشن کروانے ضروری ہیں، بلدیاتی انتخاب میں پہلے بھی 2 بار تاخیر ہو چکی ہے، حکومت اس کیس میں ایک پارٹی ہے، قانون کے حوالے سے 3 غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں۔

بابر اعوان کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات سے متعلق ابھی تک بل کی حتمی منظوری نہیں ہوئی، یونین کونسلز میں اضافے کے بل کی حتمی منظوری ابھی نہیں ہوئی، بلدیاتی انتخابات بل کی صدر مملکت نے منظوری نہیں دی، آرٹیکل 75 کے مطابق صدر مملکت کی منظوری کے بعد بل قانون بنتا ہے، صدر 10 دن کے اندر بل پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صدر کسی بل کو تجاویز یا اعتراضات کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھجوا سکتے ہیں، صدر مملکت یکم جنوری تک بلدیاتی انتخابات کا قانون واپس بھجوا سکتے ہیں، اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو شیڈول ہیں، بلدیاتی انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن کی حمایت کرتا ہوں۔

پی ٹی آئی وکیل کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کوئی آرڈر جاری نہیں کیا، ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق اختیار الیکشن کمیشن کو دیا ہے، الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹوں سے متعلق بھی فیصلہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، الیکشن کمیشن نے مکمل تیاری کر کے شیڈول کا اعلان کیا۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ اس مرحلے میں مجھے کوئی انصاف دکھائی نہیں دے رہا، امیدوار 3 چار ماہ سے الیکشن مہم میں مصروف ہیں، اتنے پیسے لگا رہے ہیں، ایک لوکل الیکشن پر بار بار اتنے پیسے کیوں لگائے جا رہے ہیں، سب جانتے ہیں معیشت کی کیا حالت ہے، کسی جگہ تو ہم نے رکنا ہے، پھر کونسا الیکشن ہو سکے گا، اسلام آباد کے لوگوں کو فیصلہ کرنے دیں، ڈر کس بات کا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر صدر مملکت دستخط کر دیں پارلیمنٹ قانون بنا دے پھر اس کو چیلنج کیا جا سکتا ہے، آرٹیکل 264 میں ہے کہ اگر قانون بن بھی جائے تو الیکشن پچھلے قانون کے مطابق ہوتا ہے، حکومت کہنا کیا چاہ رہی ہے؟ آئین ہے اس کے مطابق کام کرنا ہے، یہ مذاق نہیں ہے، پورا اسلام آباد 3 دن بعد الیکشن کی طرف دیکھ رہا ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ اس سے بڑی ناانصافی کوئی ہو نہیں سکتی، لوگوں کو ووٹ کا حق دیں، اقلیتوں کی لوکل گورنمنٹ الیکشن کے علاوہ کوئی نمائندگی نہیں ہے، غلط پیغام جائے گا، درخواست ہے 31 دسمبر کو الیکشن ہونے دیں، اگلی بار بھی انہی لوگوں کے پاس ہی ووٹ کے لیے جانا ہے۔

انہوں نے کہاکہ الیکشن کمیشن دیکھے کس جماعت نے101 یوسیزمیں کتنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، حکومت کے پاس معاملات درستگی کے لیے وسیع اختیارات ہیں، یونین کونسلز میں اضافے پر حکومتی بدنیتی نظر آ رہی ہے، حکومت نے اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ کی ہے۔

بابر اعوان کا کہنا ہے کہ دفعہ 144 کے نفاذ کے باعث امیدواروں کو الیکشن مہم چلانے سے روک دیا گیا ہے، وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بغیر یوسیز کی تعداد میں تبدیلی کی۔



[ad_2]

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *