[ad_1]
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پولیس افسران کے سیاسی بنیادوں پر تبادلوں کے خلاف کیس کی سماعت کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختون خوا حکومتوں کو پولیس آرڈر 2002ء پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے دونوں صوبائی حکومتوں کو پولیس افسران کے قانون میں درج وقت سے پہلے تبادلوں سے بھی روک دیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ مقررہ وقت سے پہلے تبادلہ ناگزیر ہو تو وجوہات تحریر کی جائیں، کسی بھی افسر کو سینئر پولیس افسر کی مشاورت کے بغیر نہ ہٹایا جائے۔
عدالتِ عظمیٰ نے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ سندھ اور بلوچستان میں بھی کیوں نہ گڈ گورننس کا یہی فارمولہ اپنایا جائے؟
سپریم کورٹ نے پنجاب، خیبر پختون خوا، سندھ اور بلوچستان پولیس سے 10 سال میں کیے گئے پولیس ٹرانسفرز کی تفصیلات طلب کر لیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے گی یا عدالت حکم دے؟ صوبائی حکومت سے ہدایات لے کر آگاہ کریں، ملک میں جرائم اور عدم تحفظ کی وجہ سے عوام متاثر ہو رہے ہیں، پولیس افسران کے تبادلے ایم پی اے کے کہنے پر نہیں ہونے چاہئیں۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے کہا کہ قانون کے مطابق 3 سال سے پہلے سی پی او یا ڈی پی او کو ہٹایا نہیں جا سکتا، ڈی پی او اور سی پی او تعینات کرنا آئی جی کا اختیار ہے، کیا پنجاب میں تمام تعیناتیاں آئی جی کرتے ہیں؟ قانون میں افسران کے قبل از وقت تبادلے پر پابندی نہیں لیکن قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ تاثر ہے کہ پولیس کو حکومتیں سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں، قانون کے مطابق تو تحقیقاتی افسران کو پولیس کے دیگر کاموں سے الگ ہونا چاہیے، تحقیقاتی افسران کا الگ مقام ہونا چاہیے تاکہ وہ مکمل آزاد ہوں، پولیس میں تفتیش کی مہارت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، ناقص شواہد پیش کیے جانے سے ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے، ملزمان کو پولیس فائدہ دے گی تو مظلوم کہاں جائے گا؟
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ پولیس افسران کے تبادلے مشاورت سے ہی ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ہی عمران خان پر حملے کا مقدمہ درج نہیں ہو رہا تھا، سپریم کورٹ کو اندراجِ مقدمہ کا حکم دینا پڑا کیونکہ کئی دن گزر چکے تھے، پنجاب حکومت خود قانون پر عمل کرے تو عدالتی حکم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا کہنا ہے کہ کے پی میں بھی قتل و غارت میں اضافہ ہو رہا ہے، ملک میں وکلاء کے قتل کے واقعات بھی بڑھ رہے ہیں، نوٹس کے باوجود پولیس تبادلوں کی رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی، عوام کے متاثر ہونے کی وجہ سے عدالت نے پولیس ٹرانسفر و پوسٹنگ کانوٹس لیا ہے، پولیس کی بے ربط ٹرانسفر و پوسٹنگ سے سارا نظام متاثر ہوتا ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے کیس کی مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
[ad_2]