سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے ادارے بہت محنت سے بنتے ہیں، اگر ایچ ای سی سے اختیارات چھین لیے تو سب بے کار ہوجائے گا۔

وہ جمعہ کو اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ریکٹرز کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ میں یہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ آپ کی قرارداد پر غور کروں گا، اور اس بات پر قائل ہوں کہ ایچ ای سی کو بے اختیار نہ کریں۔ لیکن ہماری بیوروکریسی ہر چیز پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اور یہی ایچ ای سی کے ساتھ ہورہا ہے، تعلیم سیاست نہیں ہے۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم کیوں دیوالیہ ہو رہے ہیں، ہمارے پڑوسی ممالک کیوں نہیں ہورہے ہیں؟ یہ سوال ہمیں معلوم کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنی زبان اردو میں بات کروں گا کہ اس اجتماع میں 90 فیصد لوگ گھروں میں اردو بولتے اور سمجھتے ہیں، تعلم اور زبان کا گہرا رشتہ ہے۔ لیکن میرے تصور میں یہ بات آتی ہے کہ تعلیم اپنی زبان سے ہٹ کر کسی اور زبان میں دی جائے تو وہ زیادہ مفید نہیں رہتی ہے۔ 

عرفان صدیقی نے کہا ہمیں اردو کو ہمیشہ ترجیح دینا چاہیے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پرائیویٹ یونیورسٹیز آف پاکستان (اے پی ایس یو پی) کے چیئرمین چوہدری عبدالرحمان نے کہا کہ اس کانفرنس کا مقصد ایک دوسرے کی جامعات سے سیکھنا ہے اور انہیں بہتر کرنا ہے۔ 

انہوں کہا کہ بھارت ہم سے تعلیم اور ٹیکنالوجی میں آگے ہیں، پوری دنیا میں بھارتی چھائے ہوئے ہیں۔ سارے وائس چانسلرز پاکستان کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایکٹ میں ترمیم اسے تباہ کردے گی اور چیئرمین سکریٹری کے پیچھے کاموں کے لیے بھاگتا رہے گا۔ 

ڈاکٹر اقبال چوہدری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو سائنس و ٹیکنالوجی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

جرمنی کے سفیر الفریڈ گراناس نے کہا کہ جرمنی میں 95 فیصد جامعات سرکاری ہیں جو مفت تعلیم فراہم کرتی ہیں جس کی وجہ سے جرمنی بہت آگے ہے۔ 

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ میں نے ہائر ایجوکیشن کے ایکٹ میں ترمیم کی مخالفت کی اور ہم کسی بھی صورت میں ترمیم برداشت نہیں کریں گے۔ پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن مشکلات کا شکار ہے فنڈز کی کمی ہے مگر اس کے باوجود ہم نجی جامعات اور پبلک سیکٹر کالجز کو فنڈنگ کرتے ہیں۔ 

چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے کہا کہ پنجاب ایچ ای سی کو طاقت دو ورنہ بند کردو، اس طرح ادارے نہیں چلتے۔

انہوں نے کہا کہ جامعات کی جانب سے الحاق دینے پر تحفظات ہیں کچھ جامعات کے ریگولر طلبہ تو کم ہوتے ہیں مگر وہ الحاق ہزاروں کو دے دیتے ہیں اس بنیاد پر ہم نے خیبرپختونخوا کی ایک یونیورسٹی کے خلاف ایکشن لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پرائیویٹ اور پبلک جامعات کے چکر میں نہ، پڑیں مل کر  کام کریں۔



Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *