[ad_1]
سوات میں سیلاب نے بڑے بڑے ہوٹلوں کا نام و نشان تک مٹا دیا، جو راستے میں آیا بہہ گیا، تعمیراتی شاہکار، خوبصورت ہوٹل، پل، سڑکیں سب تنکوں کی طرح بہہ گئے۔
ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان نے دریا کنارے آباد غیر قانونی عمارتوں اور ہوٹلز کے خلاف ایکشن لینے کا اعلان کردیا۔
وادی سوات کےحسین ترین مقامات، بحرین، کالام اور گبین جبہ اپنی خوبصورتی کیلئے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔
2010 کے تباہ کن سیلاب کے بعد متاثرہ دور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں سڑکیں بنی تو سیاحوں کا سمندر امڈ آیا، دیکھتے ہی دیکھتے کیا ریسٹ ہاؤس، کیا ہوٹل اور کیا رہائشی مکانات سب کے درواز ے سیاحوں کے لیے کھول دیے گئے۔
حسین مقامات پر دریا سوات کے کنارے کنکریٹ کا ایک جنگل بننا شروع ہوگیا، خوبصورتی کوداغ دار کرتے ان ہوٹلوں کی تعمیر میں لینڈ مافیا نے ساری حدیں پار کر دیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق سیلاب سے قبل سوات بھر میں 400 سے زائد چھوٹے بڑے ہوٹل تھے جن میں سے تقریبا 100ہوٹلز کی تعمیرات غیر قانونی تھی۔
غیرقانونی تعمیرات نے تجوریوں کا منہ تو کھول دیا لیکن دریا کی گزرگاہ کو تنگ کر دیا یہ تعمیرات ہر وقت ایک بڑے خطرے کی گھنٹی بجاتی رہی لیکن پیسہ کے آگے سب نظر انداز ہوتا رہا۔
سیاح آتے رہے ہوٹلوں میں جگہ کم پڑتی رہی نئے ہوٹل بنتے گئے اور دریا معمول کے مطابق بہتا رہا، آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، 26 اگست کی صبح آنے والے خوفناک سیلاب نے سب کچھ تہس نہس کر دیا۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ سب ہونے سے قبل انتظامیہ کی جانب سے غیر قانونی تعمیرات پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
سوات میں ہوٹل کی تعمیر کے لیے ضلعی انتظامیہ اور تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن لائسنس جاری کرتی ہے۔
جیو نیوز نے جب ان دونوں اداروں کے سربراہ ڈپٹی کمشنر سوات جنید خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے غیر قانونی تعمیرات کیلئے لائسنس دینے والے اداروں کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی دریا کنارے آباد غیر قانونی عمارتوں اور ہوٹلز کے خلاف ایکشن لینے کا بھی اعلان کیا۔
سیلاب کے سبب مالاکنڈ ڈویژن میں 66 افراد جاں بحق اور 47 افراد زخمی ہوئے، 2336 رہائشی مکانات مکمل تباہ ہوئے، لینڈ مافیا اور غیر قانونی تعمیرات کرنے والوں کے خلاف ایکشن اگر پہلے لے لیاجاتا تو نقصان کم ہوسکتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ انتظامیہ اب اس تباہی سے سبق حاصل کرے گی یا پھر2010 کے سیلاب کی طرح پھر سے سب کچھ بھلا دیا جائے گا۔
[ad_2]