[ad_1]
طوفانی بارشیں اور بپھرے سیلابی ریلے جہاں جہاں سے گزرے تباہی کی داستان چھوڑ گئے، سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں سیلاب نے تباہی پھیلا دی۔
گزشتہ 24 گھنٹوں میں 45 زندگیاں پانی میں ڈوب گئیں، بے گھر، کھلے آسمان تلے بیٹھے افراد کھانے کو ترس گئے، بیماریاں منڈلانے لگیں، ریلیف کیمپوں میں بھی پانی کا راج نظر آیا، کئی علاقوں میں کنکریٹ کے ڈیم ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
چار سدہ کے قریب مُنڈا ہیڈورکس پانی کے دباؤ سے ٹوٹ گیا، نوشہرہ میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آگیا، پانی کا بہاؤ 3 لاکھ کیوسک تک پہنچ گیا۔
شہری اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات پر نقل مکانی کرنے لگے، کہیں کہیں پانی اترنے لگا، علاقوں کا زمینی رابطہ ٹوٹ گیا۔
دریائے گلگت میں انتہائی اونچے درجے کا سیلاب آنے سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے، غذر میں لینڈ سلائیڈنگ سے 45 مکان تباہ ہوگئے، 7 افراد جان سے گئے۔
بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں دو روز کے دوران ہونے والی طوفانی بارشوں کے بعد سیلاب کی صورتحال ہے، کئی علاقوں میں سیکڑوں کچے مکانات گر گئے ہیں۔
کوئٹہ اور بلوچستان کے بیشتر علاقوں کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی اور ریل کے ذریعے رابطہ منقطع ہے، جبکہ کوئٹہ اور مختلف علاقوں میں گیس اور بجلی کی سپلائی بھی معطل ہے۔
اس صورتحال میں موبائل نیٹ ورک سمیت مواصلاتی نظام بھی شدید متاثر ہے۔
پنجاب میں 15 جون سے 26 اگست تک مون سون بارشوں اور سیلاب سے 4 لاکھ، 50 ہزار 83 افراد متاثر ہوئے۔ 87 مرد، 42 خواتین اور 39 بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔
سندھ میں بارشوں کا سلسلہ تو تھم گیا لیکن بارشوں کے بعد تباہی کی داستان رقم کر گیا، ہر طرف پانی ہی پانی ہے، مکانات، اسپتال، ریلوے لائن سب پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، کہیں امداد مل رہی ہے، کہیں متاثرہ افراد امداد کے منتظر ہیں۔
سندھ کے بیشتر علاقوں میں بارشوں کاسلسلہ تھم گیا ہے، لیکن پانی کی نکاسی نہیں ہو سکی۔ مٹیاری کے قریب دریائے سندھ میں قائم حفاظتی بند ٹوٹنے سے کچے کے علاقے زیر آب ہیں۔ نیو سعیدآباد کی چار یونین کونسل کے 300 سے زائد دیہی علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
حیدرآباد میں لطیف آباد اور قاسم آباد سمیت کئی علاقوں میں برساتی پانی کی نکاس نہیں ہوسکی، سکھر کے کچھ علاقوں سے بارش کے پانی کی نکاسی شروع ہوگئی، کچھ علاقوں میں جمع پانی شہریوں کے لیے مشکلات کا سبب بنا ہوا ہے۔
خیرپور میں ایک روز کے وقفے کے بعد گرج چمک کے ساتھ تیز طوفانی بارش سے شہر اور قرب و جوار کے علاقے دوبارہ ڈوب گئے ہیں۔ دادو، میہٹر اور جامشورو کے بیشتر دیہی علاقے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے مکین اپنی مدد آپ کے تحت محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔
لاڑکانہ اور قمبر شہدادکوٹ میں بارش کا پانی اب تک نہیں نکالا جاسکا ہے، سی ایم سی ٹیچنگ اسپتال، چانڈکا میڈیکل کالج، سیشن کورٹ، ڈی سی ہاؤس اور دیگر مقامات پر موجود پانی سے تعفن اٹھنا شروع ہوگیا ہے۔
جیکب آباد کے قریب سندھ سے پنجاب جانے والی ریلوے ٹریک سیلابی پانی کی زد میں آگئی ہے، سڑک اور ریلوے ٹریک 3 سے 4 فٹ سیلابی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جیکب آباد اور کشمور کے کئی علاقے اب تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔
سجاول کے ساحلی علاقے کے ایک درجن سے زائد دیہات میں ہر طرف پانی ہی پانی ہے، لوگ قریبی بند پر پناہ لیے ہوئے ہیں، دریائے سندھ کے کنارے رات گئے حفاظتی بند ٹوٹنے سے گاؤں یار محمد ملاح میں پانی داخل ہوگیا ہے، میرپور خاص کے ڈی ایچ کیو اسپتال کے اطراف بھی بارش کا پانی نہ نکالا جاسکا ہے۔
[ad_2]