سپریم کورٹ نے حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا کہہ دیا.
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹر ظفر مرزا کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں، حکومت کو ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا کہہ دیا ہے،آج ظفر مرزا کو ہٹانے کا حکم دیں گے۔
 
چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے حکومت کو معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا کہہ دیا ہے۔
 
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے کورونا وائرس پر ازخود نوٹس کیس پر سماعت کی اور اس ایشو پر حکومتی اقدامات کا جائزہ لیا ۔
 
چیف جسٹس نے کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا جبکہ وزرا اور مشیروں کی فوج در فوج آپ کے پاس ہے۔
 
جسٹس گلزار نے کہا کہ مشیروں کو وفاقی وزرا کا درجہ دے دیا گیا ہے اور مبینہ طور پر کرپٹ لوگوں کو مشیر رکھا گیا ہے ۔
 
اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ سر آپ ایسی بات نہ کریں ، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس وقت ظفر مرزا کیا ہے اور اس کی کیا صلاحیت ہے ، مبینہ طور پر ان کو کرپٹ کہا ہے۔
 
چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ ظفر مرزا نے عدالتی ہدایت پر عمل نہیں کیا ، عدالت کے سابقہ حکم میں اٹھائے گئے سوالات کے جواب نہیں آئے ہیں، عدالت نے حکم دیا تھا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کرے ، پوری دنیا میں پارلیمنٹ کام کررہی ہیں ۔
 
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکومت کومعاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کو ہٹانے کا کہہ دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ظفر مرزا کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیںآج ظفر مرزا کو ہٹانے کا حکم دیں گے۔
 
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ اس موقع پر ظفر مرزا کو ہٹانا بڑا تباہ کن ہوگا، آدھی فلائٹ میں ظفر مرزا کو نہ ہٹائیں، عدالت ظفر مرزا کا معاملہ حکومت پر چھوڑ دے۔
 
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیاکہ ظفر مرزا کے خلاف کس معاملے کی تحقیقات جاری ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ ایک شہری نے ایف آئی اے میں درخواست دی کہ ظفر مرزا نے طبی سامان بغیر ڈیوٹی چین بھجوایا ہے، اس معاملے پر ابھی انکوائری جاری ہے۔
 
اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ ظفر مرزا نے جو بھی کیا حکومت کی اجازت سے کیا، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ ہر کام حکومت کی اجازت سے کرتے ہیں؟ پہلے آپ نے حکومت کی اجازت سےآٹا بھیجا، پھر آپ نے حکومت کی اجازت سے چینی باہر بھیجی، پھر اب آپ میڈیکل آلات حکومت کی اجازت سے امپورٹ کرینگے۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ملک کی صنعتیں بند ہوگئی ہیں، انڈسٹری پوری طرح بیٹھ چکی ہے،گزشتہ 30 سال سے انڈسٹری پر توجہ نہیں دی گئی، حکومت کو اس کا ادراک نہیں، ہاکس بے پر ہزاروں گودام بنے ہوئے ہیں، کبھی ہم مینوفیکچرنگ والے ممالک میں شامل ہوتے تھے۔
 
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ آج ہمارا وزیراعظمعالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی واپسی کیلئے وقت مانگ رہا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وزیراعظم نے صرف قرضوں کی بات نہیں کی اور بھی معاملات اٹھائے ہیں۔
 
جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ وزیراعظم کابینہ میں مہرے بدل رہے ہیں، ایک مہرہ اٹھا کر دوسرے مہرہ رکھ دیا جاتا ہے، اتنی بڑی کابینہ کی ضرورت نہیں، 10 افراد کافی ہیں، کرپٹ لوگوں کی نشاندہی کی جائے۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ موجودہ وزرا اور مشیران کی موجودگی میں ترقی ہوسکتی ہے؟ جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ملک کی قیادت کا موجودہ حالات میں امتحان ہے۔
 
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ زیادہ لوگ اپنا کام کر رہے ہیں گندے انڈے تھوڑے ہیں، سویلین ہو یا فورسز سب اپنی کوشش کر رہے ہیں۔
 
چیف جسٹس ہاکستان نے کہا کہ سندھ حکومت کے علاوہ سب حکومتوں کی تفصیلات ہمارے پاس ہیں، کچھ لوگ ایسے حالات میں بھی پیسہ بنا رہے ہیں، کیا کرپٹ عناصر کو لیڈ کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔
 
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ زندگی بچانے کے معاملات میں بھی پیسے کھائے جائیں تو مقصد ختم ہوجاتا ہے۔
 
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ لاک ڈاؤن سے متعلق آج اہم میٹنگ ہے، تمام تحفظات حکومت کے سامنے رکھوں گا، پہلی بار پاکستان کو ایماندار وزیراعظم ملا ہے، پاکستان کے پاس یہ آخری موقع ہے، بہتری نہ آئی تو نجانے کیا ہوگا۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے اس پر کہا کہ خدشہ ہے ہم یہ آخری موقع بھی ضائع نہ کر دیں، چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ پارلیمان کا اجلاس بلانے میں کیا ڈر ہے؟ عدالت پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کا حکم نہیں دے سکتی۔
 
اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس سے کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے حکومت کو آگاہ کروں گا، چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ پارلیمان نے ہی اس مسئلے کو حل کرنا ہے۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ روز روز بولنے والے سیاستدان اب بالکل خاموش ہیں، اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جوابب دیا کہ میں کسی کی خاموشی پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا۔
 
اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان گلزار نے ریمارکس دیئے کہ سکھر، تھرپارکر، حیدرآباد میں لوگ رو رہے ہیں، امداد لینے کیلئے لوگ جُڑ جُڑ کے کھڑے ہوتے ہیں، سماجی فاصلوں کا کام تو ایک طرف رہ گیا ہے۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ حکومت نے جو علاقے بند کیے ہیں کیا وہاں کا ڈیٹا جمع کیا ہے؟ کیا ان لوگوں کو راشن پہنچایا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کو جواب دیا کہ اگر لوگ ہماری بات نہ مانیں تو ہم کیا کریں؟
 
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ اگر حکومت قانون نافذ نہیں کروا سکتی تو پھر سرینڈر کردے، انہوں نے سوال کیا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کیا کر رہے ہیں؟
 
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ لوگوں کو گھروں میں بند کیا ہوا ہے، لاک ڈاؤن کے نام پر ایک غریب آدمی کو سڑک پر کوڑے مارے جا رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف جنازے میں تمام لوگ پہلی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
 
اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ہم نے وزیراعظم سے کہا تھا کہ مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے، جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کیا کر رہے ہیں؟ ہم کسی پر نہ تنقید کر رہے ہیں نہ حوصلہ شکنی، ہمیں اجتماعی طور پر سوچنا ہوگا۔
 
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ عوام تلملا رہی ہے اور بھوک سے مر رہی ہے، حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا جو ابھی تک نظر نہیں آرہا، صدر مملکت کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ کا مشترکا اجلاس بلائیں، اس طرح کے معاملات میں پارلیمنٹ ہی عوام کی امید ہوتی ہے۔
 
جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ اگرہم نے ادراک نہ کیا تو کورونا وائرس ہمارے سیاسی نظام کی دھجیاں بکھیردے گا، ایک پارٹی دوسری پارٹی کے خلاف پریس کانفرنس کررہی ہے، سب کو مل جل کر چلنا ہوگا۔
 
جسٹس قاضی نے کہا کہ پارلیمنٹ ریاست کی طاقت ہوتی ہے، ریاست کی نمائندگی کرتی ہے۔
 
جسٹس عمرعطا بندیال نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم صرف بنیادی آئینی حق تک سن رہے ہیں، ڈاکٹرز علیحدہ پریشان ہیں، ٹیسٹنگ اور سماجی فاصلے کے بارے میں آگاہی نہیں ہے، ڈاکٹرز اور فیلڈ ورکرز کا تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
 
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ایک ڈاکٹر کو پوری کٹ دینی چاہیے نہ کہ صرف ایک ماسک دیں۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا وفاق اور صوبوں میں ہم آہنگی ہے؟ ہم یہ سوال صرف سندھ سے نہیں بلکہ تمام صوبوں سے کررہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ 8 ملین روپے سندھ میں راشن کی تقسیم کیلئے خرچ کیے، نہیں معلوم کدھر خرچ ہوئے۔
 
جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ راشن کس نے تقسیم کیا ہے؟ ، اب تک کتنے افراد کو راشن ملا؟ پولیس والے جے ڈی سی والوں کو لوٹ رہے ہیں، اگر حکومت 10 روپے کی چیز بھی دیتی ہے تو 4 منسٹر تصویر بنوانے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
 
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 4 ہزار افراد کو 12 تاریخ تک راشن فراہم کی گیا ہے، اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے سوال کیا کہ مقدار کیا تھی؟ کہاں سے خریدا؟ کس کو دیا گیا؟ کوئی ریکارڈ ہے؟
 
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیا اس اصول پرمدد کر رہے ہیں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو پتہ نہ چلے،کیا لوگوں کو 12 ہزار روپے بھی ملے ہیں؟
 
چیف جسٹس پاکستان نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ سیکرٹری ہیلتھ کو حفاظتی تدابیر سے متعلق معلوم ہی نہیں ہے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ نےسپریم کورٹ میں بتایا کہ 5 ہزار کٹس روزانہ کی بنیاد پر ملنا شروع ہوجائیں گی اس پر چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ سندھ کی آبادی دیکھیں کیا 5 ہزار کٹس کافی ہیں۔
 
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میدان جنگ میں بھی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف اپنی جان تک دے دیتے ہیں۔
 
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ حکومت اور تمام اداروں کی اپنی کچھ حدود ہوتی ہیں، ہرآدمی کہےکہ حفاظتی سامان ملے گا تو کام کروں گا توحالات مزید خراب ہوجائیں گے، عام آدمی کو نہیں معلوم کہ کس طرح کورونا وائرس سے بچنا ہے۔
 
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جو بھی سہولیات موجود ہیں ڈاکٹر ان میں کام جاری رکھیں، بڑی مایوسی ہوتی ہے جب نوجوان ڈاکٹرز ہڑتال کرتے ہیں۔
 
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ڈاکٹرز حلف لیتے ہیں کہ مریضوں کی جان بچانے کیلئے اپنی جان دے دیں گے۔